جنھيں ميں ڈھونڈتا تھا آسمانوں ميں زمينوں ميں

جنھيں ميں ڈھونڈتا تھا آسمانوں ميں زمينوں ميں
وہ نکلے ميرے ظلمت خانہ دل کے مکينوں ميں
حقيقت اپني آنکھوں پر نماياں جب ہوئی اپنی
مکاں نکلا ہمارے خانہ دل کے مکينوں ميں
اگر کچھ آشنا ہوتا مذاق جبہہ سائی سے
تو سنگ آستاں کعبہ جا ملتا جبينوں ميں
کبھي اپنا بھی نظارہ کيا ہے تو نے اے مجنوں
کہ ليلیٰ کی طرح تو خود بھی ہے محمل نشينوں ميں
مہينے وصل کے گھڑيوں کي صورت اڑتے جاتے ہيں
مگر گھڑياں جدائی کی گزرتی ہيں مہينوں ميں
مجھے روکے گا تو اے ناخدا کيا غرق ہونے سے
کہ جن کو ڈوبنا ہو ، ڈوب جاتے ہيں سفينوں ميں
چھپايا حسن کو اپنے کليم اللہ سے جس نے
وہی ناز آفريں ہے جلوہ پيرا نازنينوں ميں
جلا سکتي ہے شمع کشتہ کو موج نفس ان کي
الہٰی! کيا چھپا ہوتا ہے اہل دل کے سينوں ميں
تمنا درد دل کی ہو تو کر خدمت فقيروں کي
نہيں ملتا يہ گوہر بادشاہوں کے خزينوں ميں
نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کي ، ارادت ہو تو ديکھ ان کو
يد بيضا ليے بيٹھے ہيں اپنی آستينوں ميں
ترستی ہے نگاہ نا رسا جس کے نظارے کو
وہ رونق انجمن کي ہے انہی خلوت گزينوں ميں
کسی ايسے شرر سے پھونک اپنے خرمن دل کو
کہ خورشيد قيامت بھی ہو تيرے خوشہ چينوں ميں
محبت کے ليے دل ڈھونڈ کوئی ٹوٹنے والا
يہ وہ مے ہے جسے رکھتے ہيں نازک آبگينوں ميں
سراپا حسن بن جاتا ہے جس کے حسن کا عاشق
بھلا اے دل حسيں ايسا بھی ہے کوئي حسينوں ميں
پھڑک اٹھا کوئی تيری ادائے 'ما عرفنا' پر
ترا رتبہ رہا بڑھ چڑھ کے سب ناز آفرينوں ميں
نماياں ہو کے دکھلا دے کبھی ان کو جمال اپنا
بہت مدت سے چرچے ہيں ترے باريک بينوں ميں
خموش اے دل! ، بھری محفل ميں چلانا نہيں اچھا
ادب پہلا قرينہ ہے محبت کے قرينوں ميں
برا سمجھوں انہیں مجھ سے تو ايسا ہو نہيں سکتا
کہ ميں خود بھی تو ہوں اقبال اپنے نکتہ چينوں ميں
علامہ محمد اقبال
علامہ محمد اقبال

ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال (ولادت: 9 نومبر 1877ء – وفات: 21 اپریل 1938ء) بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجہ شہرت ہے۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔ علامہ اقبال کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے۔[حوالہ درکار] بحیثیت سیاست دان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریۂ پاکستان کی تشکیل ہے، جو انہوں نے 1930ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی باپ سمجھا جاتا ہے۔ گو کہ انہوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔25 دسمبر 1905ء کو علامہ اقبال اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے اور کیمبرج یونیورسٹی ٹرنٹی کالج میں داخلہ لے لیا۔ چونکہ کالج میں ریسرچ اسکالر کی حیثیت سے لیے گئے تھے اس لیے ان کے لیے عام طالب علموں کی طرح ہوسٹل میں رہنے کی پابندی نہ تھی۔ قیام کا بندوبست کالج سے باہر کیا۔ ابھی یہاں آئے ہوئے ایک مہینے سے کچھ اوپر ہوا تھا کہ بیرسٹری کے لیے لنکنز اِن میں داخلہ لے لیا۔ اور پروفیسر براؤن جیسے فاضل اساتذہ سے رہنمائی حاصل کی۔ بعد میں آپ جرمنی چلے گئے جہاں میونخ یونیورسٹی سے آپ نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔علامہ محمد اقبال 21 اپریل 1938ء بمطابق 20، صفر المصفر 1357ء کو فجر کے وقت اپنے گھر جاوید منزل میں طویل علالت کے باعث خالق حقیقی سے جا ملے اور ان کو لاہور میں بادشاہی مسجد کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔علامہ اقبال کا مزار لاہور میں شاہی مسجد کے ساتھ واقع ہے۔مزار تکمیل کے آخری مراحل میں تھا کہ 13 جون 1949ء کو اسے محکمہ اوقاف کی تحویل میں لے لیا گیا اور اُس سے اگلے سال 1950ء میں (علامہ اقبال کے انتقال کے تقریباً 12 سال بعد) کوئی ساڑھے چار سال کے عرصے میں مزار کی تعمیر مکمل ہوئی۔

More poems from same author

جگنو

Unlock the Power of Language & AI

Benefit from dictionaries, spell checkers, and character recognizers. A revolutionary step for students, teachers, researchers, and professionals from various fields and industries.

Lughaat

Empower the academic and research process through various Pakistani and international dictionaries.

Explore

Spell Checker

Detect and correct spelling mistakes across multiple languages.

Try Now

OCR

Convert images to editable text using advanced OCR technology.

Use OCR