سینہ دہک رہا ہو تو کیا چپ رہے کوئی

سینہ دہک رہا ہو تو کیا چپ رہے کوئی
کیوں چیخ چیخ کر نہ گلا چھیل لے کوئی
ثابت ہوا سکون دل و جاں کہیں نہیں
رشتوں میں ڈھونڈھتا ہے تو ڈھونڈا کرے کوئی
ترک تعلقات کوئی مسئلہ نہیں
یہ تو وہ راستہ ہے کہ بس چل پڑے کوئی
دیوار جانتا تھا جسے میں وہ دھول تھی
اب مجھ کو اعتماد کی دعوت نہ دے کوئی
میں خود یہ چاہتا ہوں کہ حالات ہوں خراب
میرے خلاف زہر اگلتا پھرے کوئی
اے شخص اب تو مجھ کو سبھی کچھ قبول ہے
یہ بھی قبول ہے کہ تجھے چھین لے کوئی
ہاں ٹھیک ہے میں اپنی انا کا مریض ہوں
آخر مرے مزاج میں کیوں دخل دے کوئی
اک شخص کر رہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر
کاش اس زباں دراز کا منہ نوچ لے کوئی
جون ایلیا
جون ایلیا

جون ایلیا (14 دسمبر، 1931ء – 8 نومبر، 2002ء) برصغیر میں نمایاں حیثیت رکھنے والے پاکستانی شاعر، فلسفی، سوانح نگار اور عالم تھے۔ وہ اپنے انوکھے انداز تحریر کی وجہ سے سراہے جاتے تھے۔ وہ معروف صحافی رئیس امروہوی اور فلسفی سید محمد تقی کے بھائی اور مشہور کالم نگار زاہدہ حنا کے سابق خاوند تھے۔ جون ایلیا کو عربی، انگریزی، فارسی، سنسکرت اور عبرانی میں اعلیٰ مہارت حاصل تھی۔اپنی جوانی میں جون کمیونسٹ خیالات رکھنے کی وجہ سے ہندوستان کی تقسیم کے سخت خلاف تھے لیکن بعد میں اسے ایک سمجھوتہ کے طور پر قبول کر لیا۔ ایلیا نے 1957ء میں پاکستان ہجرت کی اور کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔ جلد ہی وہ شہر کے ادبی حلقوں میں مقبول ہو گئے۔ ان کی شاعری ان کے متنوع مطالعہ کی عادات کا واضح ثبوت تھی، جس وجہ سے انہیں وسیع مدح اور پزیرائی نصیب ہوئی۔جون ایلیا طویل علالت کے بعد 8 نومبر، 2002ء کو کراچی میں انتقال کر گئے۔ بقول اسلم فرخی صاحب "جناب جون ایلیا ہمارے عہد کے بڑے خوش گو اور خوش فکر شاعر ہیں۔ ان کے یہاں جذباتی وفور کے ساتھ ساتھ گہرے شعور کی جو پرچھائیاں ملتی ہیں ان کی وجہ سے جناب جون ایلیا کی شاعری بڑی قابل قدر اور اہم ہوگئی ہے۔ وہ تاریخ اور فلسفے کے بڑے زیرک طالب علم ہیں، علوم پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ زندگی اور معاشرے کے بارے میں ان کا رد عمل بڑا حقیقت پسندانہ اور مثبت ہے۔ اگرچہ فنون لطیفہ میں وراثت کا کوئی تصور نہیں تاہم ہماری شاعری میں اس کلیے کے جو استثنا نظر آتے ہیں ان میں جناب جون ایلیا بھی شامل ہیں۔ شاعری اور ادب انہیں ورثے میں ملے ہیں بلکہ یہ کہنا بجا ہے کہ انہوں نے ادب و شعر کی آغوش میں آنکھیں کھولی ہیں اور ادب و شعر کی گود میں پرورش پائی ہے لیکن جو کچھ انہوں نے بزرگوں سے حاصل کیا اسے اپنی انفرادیت کی چھاپ اور اپنے ذاتی رنگ و آہنگ سے بہت زیادہ پرکشش اور اثر انگیز بنادیا ہے۔ جناب جون ایلیا غزل اور نظم دونوں پر یکساں دسترس رکھتے ہیں۔ ان کی غزلوں میں رندانہ سرخوشی، تازگی اور ندرت خیال ہے۔ نظمیں گہری فکر کی حامل اور پر اثر ہیں۔ ان کے کلام کی جس خصوصیت نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ رندانہ جوش و خروش کی تہ سے ابھرنے والی فکر ہے جو قاری کے دل و دماغ دونوں کو جھنجھوڑ دیتی ہے"۔

More poems from same author

Subscribe to our newsletter.

Get updates, offers & news. Subscribe now for the latest updates. Join us today!

Monthly updates
Stay informed monthly with the latest trends and exclusive content delivered to your inbox.
No spam
Experience the ease of a spam-free subscription that prioritizes your preferences.