عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا
عشق
سے
طبیعت
نے
زیست
کا
مزا
پایا
درد
کی
دوا
پائی
درد
بے
دوا
پایا
غنچہ
پھر
لگا
کھلنے
آج
ہم
نے
اپنا
دل
خوں
کیا
ہوا
دیکھا
گم
کیا
ہوا
پایا
فکرِ
نالہ
میں
گویا
حلقہ
ہوں
ز
سر
تا
پا
عضو
عضو
جوں
زنجیر
یک
دل
صدا
پایا
حالِ
دل
نہیں
معلوم
لیکن
اس
قدر
یعنی
ہم
نے
بارہا
ڈھونڈا
تم
نے
بارہا
پایا
شب
نظارہ
پرور
تھا
خواب
میں
خیال
اُس
کا
صبح
موجۂ
گل
کو
نقشِ
بوریا
پایا
جس
قدر
جگر
خوں
ہو
کوچہ
دادنِ
گل
ہے
زخمِ
تیغِ
قاتل
کو
طرفہ
دل
کشا
پایا
ہے
مکیں
کی
پا
داری
نام
صاحبِ
خانہ
ہم
سے
تیرے
کوچے
نے
نقشِ
مدعا
پایا
دوست
دار
دشمن
ہے
اعتمادِ
دل
معلوم
آہ
بے
اثر
دیکھی
نالہ
نارسا
پایا
نے
اسدؔ
جفا
سائل
نے
ستم
جنوں
مائل
تجھ
کو
جس
قدر
ڈھونڈا
الفت
آزما
پایا