کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا
کہتے
ہو
نہ
دیں
گے
ہم
دل
اگر
پڑا
پایا
دل
کہاں
کہ
گم
کیجے
ہم
نے
مدعا
پایا
شور
پند
ناصح
نے
زخم
پر
نمک
چھڑکا
آپ
سے
کوئی
پوچھے
تم
نے
کیا
مزا
پایا
ہے
کہاں
تمنا
کا
دوسرا
قدم
یا
رب
ہم
نے
دشت
امکاں
کو
ایک
نقش
پا
پایا
بے
دماغ
خجلت
ہوں
رشک
امتحاں
تا
کے
ایک
بیکسی
تجھ
کو
عالم
آشنا
پایا
سادگی
و
پرکاری
بے
خودی
و
ہشیاری
حسن
کو
تغافل
میں
جرأت
آزما
پایا
خاک
بازی
امید
کارخانۂ
طفلی
یاس
کو
دو
عالم
سے
لب
بہ
خندہ
وا
پایا
کیوں
نہ
وحشت
غالب
باج
خواہ
تسکیں
ہو
کشتۂ
تغافل
کو
خصم
خوں
بہا
پایا