نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا
نقش
فریادی
ہے
کس
کی
شوخیٔ
تحریر
کا
کاغذی
ہے
پیرہن
ہر
پیکر
تصویر
کا
کاو
کاو
سخت
جانی
ہائے
تنہائی
نہ
پوچھ
صبح
کرنا
شام
کا
لانا
ہے
جوئے
شیر
کا
جذبۂ
بے
اختیار
شوق
دیکھا
چاہیے
سینۂ
شمشیر
سے
باہر
ہے
دم
شمشیر
کا
آگہی
دام
شنیدن
جس
قدر
چاہے
بچھائے
مدعا
عنقا
ہے
اپنے
عالم
تقریر
کا
شوخیٔ
نیرنگ
صید
وحشت
طاؤس
ہے
دام
سبزہ
میں
ہے
پرواز
چمن
تسخیر
کا
لذت
ایجاد
ناز
افسون
عرض
ذوق
قتل
نعل
آتش
میں
ہے
تیغ
یار
سے
نخچیر
کا
خِشت
پشت
دست
عجز
و
قالب
آغوش
وداع
پر
ہوا
ہے
سیل
سے
پیمانہ
کس
تعمیر
کا
وحشتِ
خوابِ
عدم
شورِ
تماشا
ہے
اسدؔ
جُز
مژہ
جوہر
نہیں
آئینۂ
تعبیر
کا
بسکہ
ہوں
غالبؔ
اسیری
میں
بھی
آتش
زیر
پا
موئے
آتش
دیدہ
ہے
حلقہ
مری
زنجیر
کا